پچھلے وقتوں میں مائیں بیٹیوں کو تلقین کیا کرتی تھیں کہ کم بولا کرو، دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں گفتگو کرو، خاموشی بھی ایک زیور ہوتی ہے۔ چڑچڑاپن، بدگوئی، بدتمیزی اور غصہ عورت پر نہیں جچتا۔ اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے نرم روی اور صلح جوئی کا انداز اختیار کرنا اچھا ہوتا ہے۔ آج کل بھی بہت سے گھرانوں میں بیٹے کا رشتہ طے کرتے وقت بڑی بوڑھیاں بیٹی کے ساتھ ساتھ ماں کے اخلاق، کردار، گفتگو، انداز رہن سہن اور رویوں کو مدنظر رکھتی ہیں، کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا وہ کیوں کس لئے کرتی ہیں؟
اس لئے کہ ماں ہی وہ ستون ہے جس پر خاندان کی تہذیبی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اسی کے ناتواں کاندھوں پر منتقل کی جاتی ہے۔ وہ کمزور ہوتو بھی اولاد کے لیے زمانے کے سامنے سینہ سپر ہوتی ہے۔ اولاد کو جہاں جہاں ضرورت پڑے چٹان کی طرح آہنی بازوئوں میں سمیٹ کر رکھتی ہے۔ خودسختیاں سہہ لیتی ہیں، دھوپ میں زندگی گزار لیتی ہیں مگر نسلیں سنوار دیتی ہیں۔ اولاد کے آرام، ترقی کے خواب، ترقی کے وسیلے ڈھونڈنا اور اپنی ذات کی نفی کرکے بچوں کو پروان چڑھانا اور بیٹیوں کو سگھڑاپے کی دولت سے نوازنا اسی ماں کو ودیعت ہوتا ہے۔
آج کی تعلیم یافتہ ماں اس صدی کا بیش بہا انعام ہے۔ وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی بچوں کی تربیت کا بیڑا اٹھا رہی ہے۔ وہ کام کرکے چاہے وہ ملازمت ہو یا تجارت اپنے بچوں کی مالی کفالت بھی کررہی ہے۔ اسے وقت کی بہتر تقسیم کا ہنر آتا ہوتو اولاد خاص کر بیٹیوں سے قربت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں